لوگوں سے ڈرتا ہے:اس مرتبہ میں گھر گیا تو بچوں کے لئے مختلف طرح کے کھلونے لے لئے ۔ روبوٹ ‘ ریموٹ کی گاڑیاں وغیرہ ۔ بڑے بچے تو خوش ہوئے لیکن میرا اپنا بچہ جس کی عمر 18 ماہ تھی ‘ ان کھلونوں سے بہت خوفزدہ ہوا ۔ اب وہ 3 سال کا ہے ‘ میری بیوی بتاتی ہے کہ لوگوں سے ڈرتا ہے ‘ اس لئے وہ اس کو کہیں لے کر نہیں جاتی ‘ اور اس عورت سے بھی ڈرنے لگا جو اس کو سنبھالتی ہے ۔ (ش۔ا)
مشورہ:2 سال سے 5 سال کی عمرتک بچے مختلف چیزوں سے خوف محسوس کر سکتے ہیں ‘ ان میں ان بچوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جن کو ڈرایا جاتا ہے ۔ ماں سے دور رہنے والا بچہ بھی خود کو دوسروں کے پاس محفوظ نہیں سمجھتا ۔ ماں کو چاہیے کہ وہ بچے کو خود وقت دیں ‘ جہاں تک کھلونوں سے ڈرنے کی بات ہے تو یہ کیفیت عمر کے ساتھ دور ہو جاتی ہے اور بچے جو پہلے اپنے ہی کھلونوں سے پریشان ہوتے تھے ‘ کچھ بڑے ہونے کے بعد ان سے کھیلنے لگتے ہیں ۔
دوستوں کی دعوت اور شرمندگی:مجھے اپنے دوستوں ‘ گھر والوں اور رشتے داروں کو تحفے دینے کا بہت شوق ہے ۔ ایک روز تو میں نے اسکول کی فیس سے دوستوں کی دعوت کر ڈالی تھی ۔ اب اس سوچ کر بھی شرمندگی ہوتی ہے لیکن ملاقات پر کچھ نہ کچھ دینے کی خواہش اب بھی شدید ہے ۔ سمجھ میں نہیں آتا ‘ ایسا کیا تحفہ دیا کروں جو لوگ یاد رکھیں اور اچھے دوست بن جائیں۔ (شہریار بشیر‘ ساہیوال)۔
مشورہ:شوق اچھاہے مگر یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اگر یہ شوق غیر ضروری حد تک بڑھ جائے تو اپنے ہی لئے تکلیف دہ ہو گا ۔ بہتر ہے کہ تحفہ کسی خاص موقع پر دیا جائے ‘ ایسا تحفہ جس پر بڑی رقم خرچ نہ کی گئی ہو مگر فائدہ بہت زیادہ ہو مثلا ً اچھی کتاب ۔ ان لوگوں سے دوستی رکھیں جو مطالعے کا شوق رکھنے کے ساتھ خود اپنی اور دوسروں کی اصلاح اور تربیت میں دلچسپی لیتے ہوں ۔ اپنے اندر بھی حصول علم کا رجحان پیدا کریں ۔ اس طرح آپ کے علمی دوست بن جائیں گے ۔
پسند کی شادی:میرے بڑے بھائی نے صرف 22 سال کی عمر میں اپنی پسند پر شادی کر لی ۔ گھر والوں نے بھی ان کا ساتھ دیتے ہوئے انہیں اپنے ساتھ رکھا ۔ وہ شادی کے دو ماہ بعد ملک سے باہر چلے گئے ‘ وہاں دوسری شادی کر لی ۔ واپس آئے تو پہلی بیوی کو طلاق دے دی ۔ ہم سب لوگوں کو بے حد دکھ ہوا ۔ جلد ہی وہ چلے بھی گئے ۔ اب وہ اپنی دوسری بیوی سے بھی خوش نہیں ۔ امی سے کہتے ہیں ‘ یہاں کوئی اچھی لڑکی دیکھیں ‘ غیر ملکی لڑکی کے ساتھ رہنا ممکن نہیں ۔ ادھر امی ان کے لئے لڑکی دیکھنے لگی ہیں ۔ بھائی بچپن سے ضدی طبیعت کے ہیں ۔ ایک روز میں نے بھابی سے بات کی ۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ شخص نفسیاتی مریض ہے اور مانتا نہیں ‘ میں اس کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی ۔ میں مجبور بھی نہیں ۔ دونوں نے مل کر کاروبار کیا تھا اور جب میری رقم مل جائے گی ‘ میں اسے چھوڑنے میں دیر نہ کروں گی ۔ یہ حالات جان کر میں اور زیادہ پریشان ہو گیا ۔(پوشیدہ) ۔
مشورہ:کم عمری سے ہی مزاج میں تیزی ‘ ضدی پن اور سن بلوغ کو پہنچنے کے بعد شادی کی ناکامی ‘ ایک بار نہیں بلکہ کئی بار یہ ظاہر کرتی ہے کہ واقعی آپ کے بھائی کے ساتھ نفسیاتی صحت کی خرابی کا مسئلہ ہے ۔ جب ضمیر کی قوت کمزور ہو جائے تو انسان خواہشات کی رو میں بہہ جاتا ہے ‘ پھر انہیں دوسروں کے احساسات و جذبات کی پروا نہیں ہوتی ۔ شادیوں میں ناکامی سے بھی اس کیفیت کا اظہار ہو رہا ہے ۔ والدہ کو مشورہ دیں کہ اس بار بھائی آئیں تو شادی کرنے کے بجائے انہیں ماہر نفسیات سے ملوانا ضروری ہے ورنہ بہت ممکن ہے کہ تیسری شادی بھی نا کام ہو جائے ۔
بیٹی کی بس ایک خواہش! شادی:میری بڑی بیٹی جس کی عمر 40 سال ہے ‘ نفسیاتی مریضہ ہے ۔ گھر میں چھوٹی بہنوں کا آنا اور رہنا پسند نہیں کرتی تھی ۔ وہ صرف ایک خواہش کا اظہار کر رہی ہے کہ اس کی شادی کر دی جائے ۔ سوچتا ہوں اچھا ہے اپنے گھر کی ہو جائے گی۔ اس کی خواہش تو نارمل ہے ۔(ش،ز)
مشورہ:بیٹی جس ڈاکٹر یاسائیکائٹرسٹ کے زیر علاج ہیں ‘ ان سے مشورہ کرنے کی ضرورت ہو گی کہ مرض پر کس حد تک قابو ہےا ور شادی کے بعد کی ذمہ دار یاں نبھانے کی امید کی جاسکتی ہے ۔ مخصوص خواہش کے ہونے سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ رویہ ٹھیک رکھنے کا بھی اختیار ہو گیا ہے ۔ اگر نفسیاتی مرض میں آرام بھی ہو جائے تب بھی جس سے شادی کی جائے ‘ اس کے علم میں لانا ضروری ہوتا ہے کیونکہ شدید ذہنی مرض ٹھیک ہو جانے کے بعد بھی حملہ آور ہو سکتا ہے ۔
بیٹے کو چھوڑ پہلے بیٹیاں بیاہ!:پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہوں‘ گزشتہ کئی سال کینیڈا میں رہ کر وطن آیا تو والدہ نے کہا کہ اب تمہاری شادی کردیں گے‘ عمر کے چالیس سال تو بہنوں کی شادیاں کرتے کرتے گزار ہی دئیے تھے‘ اب اپنے بارے میں سنا تو اچھا لگا مگر اسی دوران چھوٹی بہن جس نے ابھی صرف انٹر ہی کیا تھا‘ اس کا رشتہ آگیا اور والدہ نے فوری طور پر میری شادی پھر ملتوی کردی‘ جو رقم کما کر لایا تھا وہ چھوٹی بہن کی شادی میں لگا دی‘ اب پھر خالی ہاتھ ہوگیا‘ سب یہی کہتے ہیں کہ دوبارہ ملک سے باہر چلے جاؤ مگر اب مجھ میں ہمت نہیں رہی‘ دوستوں کا کہنا ہے کہ اب بھی وقت ہے عمر اتنی زیادہ نہیں ہوئی کہ مایوس ہوا جائے اب بھی مجھے کم عمر لڑکی مل سکتی ہے۔ مگر میری اپنی تو کم نہیں رہی‘ اس عمر میں کوئی میرا سہارا نہیں اور نہ ہی میرے دل میں آرزو ہے کہ کسی کا سہارا تلاش کروں۔ میرے دوست کی بہن امریکہ میں ڈاکٹر ہے‘ وہ کہتا ہے کہ اس سے شادی کرلو‘ اس طرح دونوں کی زندگی سنور جائے گی مگر اب میں ساری عمر تنہا رہنے کا فیصلہ کرچکا ہوں‘ میرا خیال ہے کہ اسی طرح زندگی گزاری جائے تو زیادہ اطمینان ہوگا۔ (ڈ۔ع، لاہور)
مشورہ: اکثر گھرانوں میں لڑکوں کی شادی محض اس لیے نہیں کی جات کہ پہلے بہنوں کی شادیاں ضروری سمجھی جاتی ہیں مگر شادی تو سب کی اہم ہے‘ خواہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں‘ وقت پر یہ اہم فیصلہ کرلیا جائے تو بہتر ہوتا ہے‘ جس وقت بہن کی شادی ہوئی تو آپ کی بھی ہوسکتی تھی لیکن آپ کو اب یہ کام خودکرنا ہے‘ دوست کے مشورے پر بھی غور کیا جاسکتا ہے‘ شادی کا مطلب کسی کا سہارا حاصل کرنا نہیں بلکہ کسی کو سہارا دینا بھی تو ہے۔ انسان تنہا نہ خوش رہ سکتا ہے نہ دکھ جھیل سکتا ہے‘ اگر کسی کا ساتھ ہوجائے تو دکھ تقسیم ہوجاتے ہیں اور خوشیاں دوبالا ہوتی ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں